Bee Killing in Pakistan – پاکستان میں شہد کی مکھیوں کا قتلِ عام

“پاکستان میں شہد کی مکھیوں کا قتلِ عام”
تحریر: جواد عبدالمتین
اسلامک اکیڈمی آف کمیونیکیشن آرٹس
==============================

ہم 1993 سے شہد کے حوالے سے پروڈکشن، سپلائی، مینجمنٹ اور ریسرچ سے منسلک ہیں ۔ 2008 میں جن دنوں اسلامی اکیڈمی آف کمیونیکیشن آرٹس کی بنیاد رکھی گئی تھی انہی دنوں بازار میں عام فروخت ہونے والے شہد اور اصل خام شہد کے متعلق ہمارے تحقیقات مکمل ہوئی تھیں جس کی بنیاد پر علمائے کرام سے مشاورت کے بعد ہم نے شہد کی عام فروخت کو محدود کر دیا اور 2010 تک تمام سیل پوائنٹس بند کرکے شہد کے کام کو صرف اپنے عزیزوں، رشتہ داروں، دوستوں اور اُن خریداروں تک محدود رہنے دیا جو کہ شہد کے متعلق مکمل معلومات رکھتے اور خام اور پروسیس شہد میں فرق جانتے تھے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جیسے ہمارے ملک میں ہردوسرا شخص مفتی اور ہر تیسرا شخص ڈاکٹر ہے اسی طرح شہد کے متعلق بھی ہر شخص اپنے آپ کو ماہر سمجھتا ہے اگرچہ اس کے متعلق کچھ بھی نہ جانتا ہو۔

اب وہ تحقیقات کیا تھیں جن کی بنیاد پر ہمیں اپنے کاروبار کو محدود کرنا پڑا اس کی تفصیل میں ابھی یہاں نہیں جائیں گے۔

ہم کیونکہ عام لوگوں کے بجائے صرف شہد کے متعلق معلومات رکھنے والوں کو ہی شہد اور شہد کے کاروبار کے متعلق رہنمائی فراہم کرتے ہیں اس لئے کبھی اس کی تشہیر بھی نہیں کی۔
لیکن یہاں شہد سے متعلق اپنے کاروبار اور تربیتی ترتیب کی تشہیر کرنا مقصود نہیں ہے موضوع ہے “پاکستان میں شہد کی مکھیوں کا قتلِ عام”

اوپر یہ تذکرہ صرف اس لئے کیا تاکہ پڑھنے والوں کو اندازہ ہوجائے کہ شہد کی پروڈکشن، سپلائی، مینجمنٹ اور ریسرچ کے ستائیس سالہ تجربے کی بنیاد پر جو بات کی جارہی ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔

پچھلے چند سالوں میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے سے شہد فروخت کرنے والوں کی بڑی تعداد سامنے آئی ہے۔

ان میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو شہد اور شہد کی مکھی کے متعلق معلومات نہیں رکھتے صرف ان کو شہد کی خرید و فروخت سے حاصل ہونے والے منافع سےغرض ہے۔

یہ سوشل میڈیا پر شہد کی مکھی کے پورے پورے چھتے دکھا کر شہد کو خالص ثابت کرتے ہیں اور پھر اس کو زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔

ان کو اس بات کا بالکل اندازہ نہیں کہ شہد کی مکھی کے مکمل چھتے کو اتارنا کتنا بڑا ظلم ہے۔

سال کے کسی بھی حصے میں اگر شہد کا مکمل چھتا اتار لیا جائے تو شہد کی تمام مکھیاں مر جاتی ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شہد کے چھتے میں ایک ملکہ مکھی ہوتی ہے جو انڈے دیتی ہے اور اس ملکہ کے کسی وجہ سے مر جانے کی صورت میں مکھیاں شہد کے چھتے میں موجود بچوں میں سے نئی ملکہ کو منتخب کرتی ہیں جس سے شہد کی کالونی کا نظام چلتا رہتا ہے۔ مگر پورا چھتہ اتارنے کی صورت میں ملکہ مکھی مرجاتی ہے اور تمام بچے بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ بقایا مکھیاں ناصرف کے بے گھر ہو جاتی ہیں بلکہ ان کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں رہتا اس لیے چھتے کی تمام مکھیاں بھوک اور پیاس سے مرتی ہیں۔

مکھی نے شہد کو سردیوں میں استعمال کی خوراک کے طور پر محفوظ کیا ہوتا ہے۔
جب ان سے مکمل شہد لے لیا جاتا ہے اور ان کے چھتے بھی اتار لیے جاتے ہیں تو نہ ان کے پاس رہنے کی جگہ ہوتی ہے اور نہ ہی سردیاں گزارنے کے لیے کوئی خوراک۔ چھتے میں موجود ملکہ مکھی جو کہ سائیز میں بڑی ہونے کی وجہ سے اُڑ بھی نہیں سکتی وہ بھی ضائع ہو جاتی ہے۔

یہ بیچاری مکھیاں بھوک، پیاس اور سردی کی شدت سے مرتی ہیں اسی وجہ سے اب دیہی علاقوں میں بھی شہد کی مکھیوں کی تعداد تیزی سے کم ہورہی ہے

پاکستان میں شہد کی مکھیوں کی چار اقسام پائی جاتی ہیں ان میں سب سے بڑی ڈورساٹا ہے اس کے بعد میلیفیریا اور پھرفلوریا اور اس کے بعد سرانا۔
پاکستان میں نا تو شہد کی سب سے بڑی مکھی پائی جاتی ہے جس کا نام “لیبریوسا” ہے اور نہ ہی سب سے چھوٹی مکھی جس کا نام “انڈرينيفورميس” ہے۔

جبکہ عمومی طور پر لوگ ابھی بھی صرف چھوٹی مکھی اور بڑی مکھی پر ہی بحث میں مصروف ہیں۔

یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ پوری دنیا میں شہد پر تحقیق کے حوالے سے مکھیوں سے زیادہ اِن پھولوں کی اہمیت رہی ہے جن سے شہد حاصل کیا گیا ہو۔

پوری دنیا میں شہد پرتحقیق کا بہت کام ہو چکا ہے، نا صرف کے شہد بلکہ شہد کی مکھی کے حوالے سے بھی بہت سے حقائق سامنے آئے ہیں جو کہ عام لوگوں کے لیے ناصرف کے حیران کن ہیں بلکہ اس بات کو بھی واضح کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں ایک پوری سورت شہد کی مکھی کے نام پر کیوں ہے اور اس کو اتنا تفصیل سے کیوں بیان کیا گیا ہے۔

قرآن کریم میں شہد سے متعلق آیات میں مختصر مگر انتہائی جامع طور پرشہد کی مکھی اور شہد کے متعلق معلومات دی گئی ہیں، جن کو مکمل طور پر سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں اس کو شہد کے ماہرین ہی سمجھ سکتےہیں لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے اس کو یہاں طوالت کے ڈر سے ذکر نہیں کیا جا سکتا۔

لیکن شہد کی مکھی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تحقیق کے مطابق 60 سے 80 فیصد انسانی خوراک کی پیداوار شہد کی مکھی کی مرہونِ منت ہے کیونکہ یہ پودوں میں پولینیشن کا کام کرتی ہے جس کی وجہ سے ہی پھل اور سبزیاں پیدا ہوتے ہیں۔

اسی حوالے سے معروف سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کا قول ہے کہ:
“If the bee disappeared off the surface of the globe then man would only have four years of life left. No more bees, no more pollination, no more plants, no more animals, no more man.”
–Albert Einstein —
ترجمہ:
“اگر مکھی دنیا کی سطح سے ختم ہو جاتی ہے تو پھر “انسان کے پاس زندگی کے صرف چار سال باقی رہ جاتے ہیں”۔ اگرمکھیاں نہیں ہوں گی تو پولینیشن نہیں ہوگی اور پولینیشن نہ ہونے کی وجہ سے پودے نہیں ہوں گے، جس کی وجہ سے جانور ختم ہو جائیں گے اور پھر انسان بھی ختم ہوجائیں گے۔
–البرٹ آئن سٹائین–

آپ کو اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ قدرت کے اس نظام میں شہد کی مکھی کس قدر اہم ہے۔
جیسے ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے لیے ماہرین کی سرپرستی ضروری ہے اسی طرح شہد کے کام سے متعلق لوگوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اس شعبے کے ماہرین سے تربیت حاصل کریں اور پھر شہد کے کاروبار سے منسلک ہوں۔

شہد کی مکھیوں کے قتل عام کے حوالے سے محکمہ زراعت اور محکمہ جنگلات پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی روک تھام کے لیے بھرپور اقدامات کریں ورنہ آنے والے سالوں میں شہد کی مکھیوں کے کم ہو جانے کی صورت میں ہماری تمام فصلیں اور باغات پیداوار کی شدید کمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔

فوری کرنے کے کام درج ذیل ہیں:-

1-
شہد کی مکھی کے مکمل چھے اتارنے پر مکمل پابندی اور جرمانہ عائد کیا جائے ۔
سرانا مکھی کے چھتے اتارنے پر مکمل پابندی لگائی جائے کیونکہ اس میں شہد بھی بہت کم ہوتا ہے اور یہ مکھی بھی ناپید ہوتی جارہی ہے

2-
ڈورساٹا اور فلوریا مکھی کے مکمل چھتے نہ اتارے جائیں بلکہ صرف شہد والا حصہ اتارا جائےاور کچھ شہد مکھی اور اس کے بچوں کے لیے چھوڑ دیا۔

3-
زراعت کے شعبے میں شہد کی مکھی کی اہمیت کے پیش نظر محکمہ زراعت اور محکمہ جنگلات شہد کی مکھی کی حفاظت کے لئے حکومتی سطح پر قانون سازی کے لئے موثر اقدامات کریں۔

4-
ان تمام معاملات کو طے کرنے کےلیے قومی زرعی تحقیقاتی مرکز کے شعبہ مگس بانی سے رہنمائی حاصل کی جائے.

5-
شہد کی کوالٹی سے متعلق عوام کے خدشات کو دور کرنے کے لیے لیبارٹریوں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ شہد کے خالص ہونے کی یقین دہانی کرنے کے لئے چھتوں میں شہد حاصل کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جا سکے

یہ تحریر نیک نیتی کی بنا پر اشتراک کی جارہی ہے۔ ادارے کا کسی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Open chat
Hello 👋
Can we assist you?