پودے لگانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے سے گھر تو خوبصورت ہوتا ہی ہے۔۔۔ دل کو بھی سکون ملتا یے۔ ماہرین کے تجربے کے مطابق پودوں اور پرندوں سے پیار کرنے والا بندہ دل کا نرم اور دوسروں کا زیادہ خیال رکھنے والا ہوتا ہے۔
گھریلو باغبانی ایک بہت اچھا شوق ہے اور اس شوق کو پالنے والا انسان کبھی اکتاہٹ کا شکار اور پریشان نہیں ہوتا۔ ہر کام کے کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں۔۔۔ باغبانی کرنے والوں کو بھی ان باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔
۔ گوڈی بڑھائے ڈوڈی:
گوڈی پودوں کے لیے کھاد اور نمکیات سے زیادہ ضروری اور اہم ہے. کم از کم 15 دن بعد گوڈی ضرور کریں۔ اس مقصد کے لیے آپ 1.5 انچ والی رمبی، کھرپا یا پرانی موٹی چھری استعمال کر سکتے ہیں۔ ویسے چھری سے کام کرنا آسان ہوتا ہے۔ گوڈی سے دو تین دن پہلے پانی بند کر دیں اور گوڈی کے تقریباً دو دن بعد پانی دیں یا جب اوپر کی مٹی خشک ہوجائے تب اچھی طرح پانی دیں۔۔۔ صرف چھڑکاؤ نہ کریں بلکہ اتنا گہرا پانی دیں کہ وہ زمین کے اندر تک بہہ جائے اور جذب ہو جائے۔
۔ پانی رے پانی:
اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ نرسری میں تو پودے شاندار نشوونما پا رہے ہوتے ہیں لیکن، جب گھر لاتے ہیں تو کچھ دن بعد مرجھا جاتے ہیں یا ان کی بڑھوتری رک جاتی ہے تو ایسا صرف زیادہ یا کم پانی دینے سے ہوتا ہے۔ ہم محبت میں روزانہ بالٹیاں بھر بھر کے اور پمپ چلا کے پانی ڈالتے جاتے ہیں۔ یہ تو بلی کو دھو کر، نچوڑ کر سوکھنے کے لیے ڈالنے والی بات ہے۔
پانی اس وقت تک نہ دیں جب تک مٹی کی اوپر کی سطح خشک نہ ہوجائے۔ سردیوں میں پانی ہفتے میں ایک بار دینا چاہیے اور گرمیوں میں دوسرے دن یا ضرورت کے مطابق۔ گوڈی کرنے کے بعد کم از کم 2 دن پانی نہ دیں تاکہ مٹی میں آکسیجن جذب ہو سکے۔ اگر پودوں پر پھول آ رہے ہوں تب بھی پانی کم دیں ورنہ پودا فلاورنگ روک کر بڑھنا شروع ہوجائے گا۔
کھارا یا نمکین پانی بالکل نہ دیں. تازہ یا نہر کا پانی ہمیشہ صبح یا عصر کے بعد دیں۔ پودوں کے پتوں پر پانی کا چھڑکاؤ کم کرنا چاہیے۔
۔ کھاد، گوبر، کمپوسٹ:
بہتر ہے کہ گھریلو پودوں کو کیمیائی کھادوں سے بچایا جائے۔۔۔ لیکن اگر اشد ضرورت کے تحت استعمال کرنی پڑے تو بہت تھوڑی مقدار میں استعمال کریں۔ گوبر اور سوکھے پتوں اور سبزیوں و پھلوں کے چھلکوں سے تیار کردہ کمپوسٹ گھریلو پودوں کے لیے سب سے زیادہ مفید ہے۔
ہر کھاد پانی کے ساتھ استعمال کریں۔ چاہے وہ گوبر کی ہو یا کیمیائی۔ اگر گوبر میسر نہیں تو مہینے میں ڈی-اے-پی آدھا چھوٹا چمچ فی گملا پانی لگاتے ہوۓ دے سکتے ہیں اور یوریا چوتھائی چائے والا چمچ دس پندرہ دنوں میں ایک مرتبہ کافی ہے۔
۔ دھوپ اور روشنی:
پودوں اور سبزیوں کو دھوپ اور روشنی ملنا بہت ضروری ہے اگر سردی میں چھے سات گھنٹے سے کم دھوپ یا روشنی ملے تو پودوں کی پرورش صحیح نہیں ہوگی اور پھول نہیں آئیں گے۔ سبزیاں لگاتے ہوئے خیال رکھیں کہ بیج دھوپ کی طرف لگیں۔
۔ چھٹائی، چھدرائی، کٹائی :
اپنے پودوں کی باقاعدہ چھٹائی اور زائد کٹائی کریں۔ گلے سڑے اور خشک پتے اور ٹہنیاں ہٹا دیں۔ اس کے لیے بازار میں کٹر دستیاب ہیں یا پھر کوئی پرانی قینچی اس کام کے لیے رکھ لیں۔
۔ کیاری والے پودے:
کیاری میں پودے لگاتے وقت خیال رکھیں کہ ایک جیسے پانی لینے والے پودے لگائیں۔ کچھ کو زیادہ پانی چاہیے ہوتا ہے اور کچھ کو کم۔۔۔ تو اکٹھے لگانے سے کوئی ایک خراب ہوجائے گا۔ اس کے لیے آپ کیاری کو تقسیم کر لیں اور اسی حساب سے پانی دیں۔
۔ شدید سردی یا گرمی:
پودوں کو موسمی شدت سے بچائیں۔ زیادہ سردی گرمی میں ممکن ہو تو سایہ دار جگہ پہ کر دیں. سردی میں پولیتھین اور گرمی میں سبز جالی لگا سکتے ہیں۔ اگر بڑے درخت یا کسی اور چیز کا سایہ ہے تو وہی سایہ دار جگہ بھی کافی ہے۔
۔ پانی کا اخراج:
اس بات کی یقین دہانی کر لیں کہ گملوں میں پانی کے اخراج کے سوراخ درست ہیں؟ کہیں وہ بند تو نہیں ہو گئے؟ کیونکہ یہ سوراخ بند ہو جانے سے پانی گملے میں زیادہ دیر جمع رہے گا اور پودوں کی جڑیں گل سڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ اسی طرح کیاریوں سے بارش کے زائد پانی کے اخراج کا بھی مناسب انتظام ہونا چاہیے۔
۔ پودوں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے:
پودے بھی ہمارے احساسات کو سمجھتے ہیں۔ اگر ہم بول کر پودوں کی تعریف کریں گے تو ان کی پرورش مزید اچھی ہوگی۔ پودوں کے اوپر پیار سے ہاتھ پھیریں، شاباش دیں اور ہو سکے تو پاک صاف پتوں اور پھولوں کو چوم لیں۔
اپنے پودوں کے پاس بیٹھیں، ان کی گوڈی کریں۔ جڑی بوٹیاں وغیرہ نکال دیں۔ پانی کا چھڑکاؤ ضرور کریں، پتوں اور ٹہنیوں سے دھول، مٹی گرد اچھی طرح دھو دیں۔ یقین کریں آپ کے پودے بہت خوش ہوں گے اور صحت مند رہیں گے۔
۔ پرندوں کے گھونسلے اور دانہ دنکا:
اگر آپ نے اپنے باغیچے میں پرندوں کے گھونسلے اور دانے پانی کا انتظام کیا ہوا ہے تو یہ ایک طرح کا صدقہ جاریہ بھی ہے اور اس سے آپ کے لان اور باغیچے کی خوبصورتی اور مدھر، سریلی آوازوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ پرندے پودوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں سے نجات دلانے کا باعث بھی بنتے ہیں۔
اس تحریر کا تبادلہ بھلائی کی نیت سے کیا جا رہا ہے۔ تاہم ادارے کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں